Languages فارسی فارسى درى English اردو Azəri Bahasa Indonesia پښتو français ไทย Türkçe Hausa Kurdî Kiswahili Deutsche РУС Fulfulde Mandingue
Scroll down
سیرت امام حسن عسکری علیہ السلام

سیرت امام حسن عسکری علیہ السلام

2024/10/06

سیرت امام حسن عسکری علیہ السلام

 

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ یَا أَبا مُحَمَّدٍالْحَسَنِ بْنَ عَلِیٍّ الْهادِي الْمُھْتَدِی وَرَحْمَۃُ اللهِ وَ بَرَکاتُہُ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَیَا وَلِیَّ اللهِ وَابْنَ أَوْلِیَائِہِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَیَا حُجَّةَ اللهِ وَابْنَ حُجَجِہِ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَیَا صَفِیَّ اللهِ وَابْنَ أَصْفِیَائِہِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَیَا خَلِیفَةَ اللهِ وَابْنَ خُلَفائِہِ وَأَبا خَلِیفَتِہِ۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 10 ربیع الثانی سن 232 ہجری قمری بروز جمعہ مدینہ منورہ میں جناب حدیثہ خاتون کے بطن مبارک سے متولد ہوئے۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رکھے ہوئے نام، حسن بن علی سے موسوم کیا۔
شواہدالنبوت ص 210،صواعق محرقہ ص 124،نور الابصار ص 110،جلاء العیون ص 295،ارشاد مفید ص 502
آپ کی کنیت ابو محمد تھی اور آپ کے بہت سے القاب تھے۔ جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اور ابن الرضا زیادہ مشہور ہیں۔
نور الابصار ص 150،شواہد النبوۃ ص 210،الدمعۃ الساکبہ ج 3 ص 122،مناقب ابن شہر آشوب ج 5 ص 124
آپ کا لقب عسکری اس لیے زیادہ مشہور ہوا کہ آپ جس محلے میں بمقام سرمن رائے رہتے تھے، اسے عسکر کہا جاتا تھا اور بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پر لشکر جمع کیا تھا اور خود بھی قیام پذیر تھا تو اسے عسکر کہنے لگے تھے، اور خلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے بلوا کر یہیں مقیم رہنے پر مجبور کیا تھا نیز یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ کو اسی مقام پر نوے ہزار لشکر کا معائنہ کرایا تھا اور امام علیہ السلام نے اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا مشاہدہ کرا دیا تھا انہیں وجوہ کی بناء پر اس مقام کا نام عسکر ہو گیا تھا، جہاں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام مدتوں مقیم رہ کر عسکری مشہور ہو گئے۔
بحار الانوار ج 12 ص 154،وفیات الاعیان ج 1 ص 135،مجمع البحرین ص 322،تذکرةالمعصومینص 222
آپ کا عہد حیات اور بادشاہان وقت:
آپ کی ولادت 232 ہجری میں اس وقت ہوئی جبکہ واثق باللہ ابن معتصم بادشاہ وقت تھا جو 227 ہجری میں خلیفہ بنا تھا ۔ پھر 233 ہجری میں متوکل خلیفہ ہوا۔ جو حضرت علی علیہ السلام اور ان کی اولاد سے سخت بغض و عناد رکھتا تھا، اور ان کی منقت کیا کرتا تھا۔ اسی نے 236 ہجری میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت جرم قرار دی اور ان کے مزار کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اسی نے امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا مدینہ سے سرمن رائے میں طلب کرا لیا، ، اور آپ کو گرفتار کرا کے آپ کے مکان کی تلاشی کرائی ، پھر 247 ہجری میں مستنصر بن متوکل خلیفہ وقت ہوا پھر 248 ہجری میں مستعین خلیفہ بنا، پھر 252 ہجری میں معتز باللہ خلیفہ ہوا، اسی زمانے میں امام علیہ السلام کو زہر سے شہید کر دیا گیا پھر 255 ہجری میں مہدی باللہ خلیفہ بنا، ان تمام خلفاء نے آپ کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو آل محمد کے ساتھ برتاؤ کیے جانے کا دستور چلا آ رہا تھا۔
معانی الاخبارالرضا ، ص 65،دلائل الامامة،،ص 223
امام حسن عسکری علیہ السلام کا پتھر پر مہر لگانا:
ثقۃ الاسلام یعقوب کلینی اور امام اہلسنت علامہ جامی نے لکھا ہے کہ:ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت یمنی آیا اور اس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر کر دیں حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی آپ کا اسم گرامی اس طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے۔
اصول کافی، ج 1، ص 503
پہلا دور بچپن کے وہ 13 سال ہیں جو انہوں نے مدینہ میں گزارے۔دوسرا دور انہوں نے امامت سے قبل سامرا میں گزارا۔
تیسرا دور ان کی امامت والے 6 سال ہیں۔ ان چھ سالوں میں حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اس وقت وہاں پر خلیفہ ہارون کی تقلید کرنے والے اپنی ظاہری طاقت کا مظاہرہ کرتے مگر امام ہمیشہ باطل کے مقابلے کے لیے میدان عمل میں کار فرما رہے۔ اپنی امامت کے چھ سالوں میں سے تین سال امام علیہ السلام قید میں رہے۔ قید خانے کے انچارج نے دو ظالم غلاموں کو مقرر کر رکھا تھا کہ آنحضرت علیہ السلام کو آزار پہنچائیں لیکن جب ان دو غلاموں نے امام علیہ السلام کے حسن سلوک اور سیرت کو نزدیک سے دیکھا تو وہ امام کے گرویدہ ہو گئے۔
جب ان غلاموں سے امام حسن عسکری کا حال پوچھا جاتا تو وہ بتاتے کہ یہ قیدی دن کو روزہ رکھتا ہے اور شب بھر اپنے معبود کی عبادت کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور کسی سے بھی بات چیت نہیں کرتے، وہ (امام حسن عسکری) اس دور کے زاہد ترین انسان ہیں۔
عبید اللہ خاقان کے بیٹے نے کہا ہے کہ:میں لوگوں سے ہمیشہ امام حسن عسکری کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوتا کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے لیے احترام اور محبت پا‏ئیجاتیتھی۔امامحسنعسکری علیہ السلام اپنے خاص شیعوں سے ملا کرتے تھے مگر پھر بھی عباسی خلیفہ اپنی حکومت کو تحفظ دینے کے لیے زیادہ تر ان پر نظر رکھتا اور انہیں قید میں رکھ کر عام لوگوں سے ملاقات سے روکا کرتا تھا۔
الارشاد، ص 335،الاتحاف بحب الاشراف، ص 178
اہلبیت علیہم السلام محور خیر و برکت:
ابو ہاشم جعفری نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے آیت:
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَیْراتِ کے بارے میں پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
کلّهم من آل محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الظالم لنفسه الّذی لا یقرّ بالإمام و ( المقتصد ) العارف الإمام، و السابق بالخیرات الإمام
سب محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خاندان میں سے ہیں۔ جس نے امام کا اعتراف نہ کیا اس نے خود پر ستم کیا ، اور جس نے امام کو کما حقہ پہچان لیا اس نے میانہ روی اختیار کی۔ خدا کے احکام اور نیکی میں پہل کرنے والی بھی امام ہی کی ذات اقدس ہے۔
تفسیر نور الثقلین‏‏‏،ج 4،ص 364
قالَ الإمامُ الْحَسَنِ الْعَسْکَری علیہ السلاممَنْ لَمْ یَتَّقِ وُجُوهَ النّاسِ لَمْ یَتَّقِ اللهَ
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: جو لوگوں سے بیباکی سے پیش آئے، اخلاقی مسائل اور لوگوں کے حقوق کی رعایت نہ کرے ، وہ خدا کے تقویٰ کی بھی رعایت نہیں کرتا۔
بحار الأنوار، ج 68، ص 336
امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی امامت اور ان کی غیبت کے وسائل کی فراہمی:
احمد ابن اسحاق اس سوچ میں تھا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد آپ کا جانشین کون ہو گا، اسی اثناء میں امام نے شفقت سے اس کی طرف رخ کیا اور فرمایا : اے احمد بن اسحاق ! خدا نے جس دن آدم کو خلق کیا، اس دن سے آج تک دنیا کو اپنی حجت سے خالی نہیں چھوڑا اور نہ قیامت تک خالی چھوڑے گا، خدا اپنی حجت کی موجودگی کی برکت سے زمین سے بلاؤں کو دور ، اس پر باران رحمت کا نزول اور اس میں پوشیدہ رازوں کو عیاں کرتا ہے۔
احمد ابن اسحاق نے سوال کیا، آپ کے بعد امام کون ہے ؟ امام علیہ السلام اٹھ کر اندر تشریف لے گئے اور اندر سے ایک تین سالہ بچے کو کہ جس کا چہرہ مبارک چودہویں کے چاند کی طرح روشن تھا ، اپنی گود میں لے آئے اور فرمایا:” اگر تم خدا اور اماموں کے نزدیک محبوب نہ ہوتے تو ہرگز تمہاری اس سے ملاقات نہ کرواتا۔ یہ رسول خدا، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہم نام اور ہم کنیت ہے ، یہ اس وقت زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جب زمین ظلم و جور سے پر ہو چکی ہو گی یہ مصلحت خدا سے غیبت میں چلا جا‏ئےگا،
کمال الدین و تمام النعمۃ،ج 2، ص 118 و 119
امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی کا مختصر جائزہ:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مقابلہ بھی اپنے اجداد طاہرین کی طرح اس وقت کے ظالم ، جابر ، غاصب ، عیار اور مکار عباسی خلفا سے تھا۔ آپ کی مثال اس دور میں ایسی ہی تھی جس طرح ظلم و استبداد کی سیاہ آندھیوں میں ایک روشن چراغ کی ہوتی ہے۔آپ مہتدیوں اور معتمدوں کی دروغگوئی ، فریب ، سرکشی کے دور میں گم گشتہ افراد کی ہدایت کرتے رہے۔ آپ کیامامت کے دور میں عباسی خلفاء کے ظلم و استبداد کے محلوں کو گرانے کے بہت سے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جو براہ راست امام علیہ السلام کی ہدایات پر مبنی تھے۔ ان میں سے مصر میں احمد ابن طولون کی حکومت کا قیام ، بنی عباس کے ظلم و ستم کے خلاف حسن ابن زید علوی کی درخشاں خونچکان تحریک اور آخر کار حسن ابن زید کے ہاتھوں طبرستان کی فتح اور صاحب الزنج کا عظیم جشن اس دور کے اہم واقعات میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ مخفیانہ طور پر جو ارتباط امام علیہ السلام سے برقرار کیے جاتے تھے، اس کی وجہ سے حکومت نے اس باب ہدایت کو بند کرنے کے لیے چند پروگرام بنائے۔ پہلے تو امام کو عسکر چھاؤنی میں فوجیوں کی حراست میں دے دیا۔ دوسرے مہتدی عباسی نے اپنے استبدادی اور ظالمانہ نظام حکومت پر نظر ثانی کی اور گھٹن کے ماحول کو بہ نسبت آزاد فضا میں تبدیل کیا اور نام نہاد ، مقدس مآب ، زرخرید ملّا عبد العزیز اموی کی دیوان مظالم کے نام سے ریا کاری پر مبنی ایک ایسی عدالت تشکیل دی جہاں ہفتے میں ایک دن عوام آ کر حکومت کے کارندوں کے ظلم و ستم کی شکایت کرتے تھے۔لیکن اس ظاہری اور نام نہاد عدالت کا در حقیقت مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ روز بروز امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف مسلمانوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور چاروں طرف سے حریت پسند مسلمانوں کی تحریک سے بنی عباس کی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور عوام کی سیل آسا تحریک سے بنی عباس کی حکومت کے زوال کے خوف سے بنی عباس نے عوام میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لیے پروگرام بنایا کہ پہلے تو مال و دولت کو عوام کے درمیان تقسیم کیا جائے تا کہ لوگوں کی سرکشی کم ہو اور عوام کو خرید کر ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ جس امام میں حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے میں آسانی ہو ۔
تاریخ شاہد ہے کہ تمام دنیا کے جابر و ظالم حکمرانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ جب بھی ان کے استبداد کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ جلد سے جلد اس آواز کو دولت سے خاموش کر دیں اگرچہ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ آنے والی نسل میں ان کے لیے سوائے رسوائی اور ذلت کے کچھ نہیں ہو گا اور ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی دنیا نہ صرف یہ کہ حمایت کرے گی بلکہ ان بزرگوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھی گی اور ان مظلوموں کی زندگی کے نقش قدم پر چل کر فخر کرے گی۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے بھی ہمیشہ اپنے اجداد کی طرح دین اسلام کی حفاظت اور پاسداری میں اپنی زندگی کے گرانقدر لمحات کو صرف کیا اور دین کی حمایت کرتے رہے اگرچہ دین کی حمایت اور عوام کی خدمت عباسی حکمرانوں کے لیے کبھی بھی خوش آئند نہیں رہی، لیکن خداوند متعال نے اپنی آخری حجت اور دین اسلام کے ناصر حضرت امام مہدی علیہ السلام کو امام حسن عسکری کے گھر میں بھیج کر واضح کر دیا ہے کہ دین اسلام کے اصلی مالک و وارث اہل بیت رسول علیہ السلام ہی ہیں۔
چار ماہ کی عمر اور منصب امامت:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی عمر جب چار ماہ کے قریب ہوئی تو آپ کے والد امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے بعد کے لیے منصب امامت کی وصیت کی اور فرمایا کہ میرے بعد یہی میرے جانشین ہوں گے اور اس پر بہت سے لوگوں کو گواہ کر دیا۔
الارشاد 502،الدمعۃالساکبہ ج 3 ص 163 بحوالہ اصول کافی
علامہ ابن حجر مکی کا کہنا ہے کہ امام حسن عسکری ، امام علی نقی کی اولاد میں سب سے زیادہ اجل و ارفع اعلی و افضل تھے۔
چار سال کی عمر میں آپ کا سفر عراق:
متوکل عباسی ناصبی کہ جو آل محمد کا ہمیشہ سے دشمن تھا، اس نے امام حسن عسکری کے والد بزرگوار امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا 236 ہجری میں مدینہ سے سرمن رائے بلا لیا، آپ ہی کے ہمراہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو بھی جانا پڑا، اس وقت آپ کی عمر صرف چار سال اور چند ماہ کی تھی۔
الدمعۃالساکبہ ج 3 ص 162
یوسف آل محمد علیہ السلام کنوئیں میں:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نہ جانے کس طرح اپنے گھر کے کنوئیں میں گر گئے، آپ کے گرنے سے عورتوں میں کہرام عظیم برپا ہو گیا۔ سب چیخنے اور چلّانے لگیں ، مگر امام علی نقی علیہ السلام جو محو نماز تھے، بالکل متاثر نہ ہوئے اور اطمینان سے نماز کا اختتام کیا، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں حجت خدا کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ اسی دوران میں دیکھا گیا کہ پانی بلند ہو رہا ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام پانی میں کھیل رہے ہیں۔
الدمعۃالساکبہ ج 3 ص 179
امام حسن عسکری علیہ السلام اور کمسنی میں عروج فکر:
آل محمد جو تدبر قرآنی اور عروج فکر میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک بلند مقام بزرگ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں۔ علمائے فریقین نے لکھا ہے کہ:ایک دن آپ ایک ایسی جگہ کھڑے تھے کہ جہاں کچھ بچے کھیل میں مصروف تھے۔ اتفاقا ادھر سے عارف آل محمد جناب بہلول دانا گزرے، انہوں نے یہ دیکھ کر کہ سب بچے کھیل رہے ہیں اور ایک خوبصورت سرخ و سفید بچہ کھڑا رو رہا ہے، ادھر متوجہ ہوئے اور کہا اے نونہال مجھے بڑا افسوس ہے کہ تم اس لیے رو رہے رہو کہ تمہارے پاس وہ کھلونے نہیں ہیں، جو ان بچوں کے پاس ہیں سنو ! میں ابھی ابھی تمہارے لیے کھلونے لے کر آتا ہوں۔ یہ کہنا تھا کہ اس کمسنی کے باوجود بولے، ایسا نہ سمجھ ہم کھیلنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، بلکہ ہم علم و عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ بہلول نے پوچھا کہ تمہیں یہ کیونکر معلوم ہوا ہے کہ غرض خلقت علم و عبادت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی طرف قرآن مجید رہبری کرتا ہے، کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خداوند فرماتا ہے کہ:أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکمْ عَبَثا
کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تم کو عبث (کھیل کود) کے لیے پیدا کیا ہے اور کیا تم ہماری طرف پلٹ کر نہ آؤ گے۔
سورہ مؤمنون 115
یہ سن کر بہلول حیران رہ گیا، اور کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اے فرزند تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ تم رو رہے تھے، گناہ کا تصور تو ہو نہیں سکتا کیونکہ تم بہت کم سن ہو، آپ نے فرمایا کہ کمسنی سے کیا ہوتا ہے میں نے اپنی والدہ کو دیکھا ہے کہ بڑی لکڑیوں کو جلانے کے لیے چھوٹی لکڑیاں استعمال کرتی ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں جہنم کے بڑے ایندھن کے لیے ہم چھوٹے اور کمسن لوگ استعمال نہ کیے جائیں۔
صواعق محرقہ ص 124،نور الابصار ص 150،تذکرةالمعصومینص 230
امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا آغاز امامت:
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام کی شادی جناب نرجس خاتون سے کر دی۔ جو قیصر روم کی پوتی اور شمعون وصی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسل سے تھیں۔
جلاء العیون ص 298
اس کے بعد آپ 3 رجب 254 ہجری کو درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہوا۔ آپ کے تمام معتقدین نے آپ کو مبارک باد دی اور آپ سے ہر قسم کا استفادہ شروع کر دیا۔ آپ کی خدمت میں آمد و رفت اور سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ آپ نے جوابات میں ایسے حیرت انگیز معلومات کا انکشاف فرمایا کہ لوگ دھنگ رہ گئے۔ آپ نے علم غیب اور علم بالموت تک کا ثبوت پیش فرمایا اور اس کی بھی وضاحت کی کہ فلاں شخص کو اتنے دنوں میں موت آ جائے گی۔
علامہ ملا جامی لکھتے ہیں کہ: ایک شخص نے اپنے والد سمیت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی راہ میں بیٹھ کر یہ سوال کرنا چاہا کہ باپ کو پانچ سو درہم اور بیٹے کو تین سو درہم اگر امام دیدیں تو سارے کام ہو جائیں، یہاں تک امام علیہ السلام اس راستے پر آ پہنچے ، اتفاقا یہ دونوں امام کو پہچانتے نہ تھے۔ امام خود ان کے قریب گئے اور ان سے کہا کہ تمہیں آٹھ سو درہم کی ضرورت ہے، آؤ تمہیں دیدوں دونوں ہمراہ ہو لیے اور رقم معہود حاصل کر لی اسی طرح ایک اور شخص قید خانے میں تھا۔ اس نے قید کی پریشانی کی شکایت امام علیہ السلام کو لکھ کر بھیجی اور تنگ دستی کا ذکر شرم کی وجہ سے نہ کیا۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ تم آج ہی قید سے رہا ہو جاؤ گے اور تم نے جو شرم سے تنگدستی کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس کے متعلق معلوم کرو کہ میں اپنے مقام پر پہنچتے ہی سو دینار بھیج دوں گا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اسی طرح ایک شخص نے آپ سے اپنی تنگدستی کی شکایت کی آپ نے زمین کرید کر ایک اشرفی کی تھیلی نکالی اور اس کے حوالے کر دی۔ اس میں سو دینار تھے۔
شواہد النبوۃ ص 211
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ: حسن ابن ظریف نامی ایک شخص نے حضرت سے لکھ کر دریافت کیا کہ قائم آل محمد پوشیدہ ہونے کے بعد کب ظہور کریں گے۔ آپ نے تحریر فرمایا جب خدا کی مصلحت ہو گی۔ اس کے بعد لکھا کہ تم تپ ربع( بیماری کا نام) کا سوال کرنا بھول گئے ہو، جسے تم مجھ سے پوچھنا چاہتے تھے۔ تو دیکھو ایسا کرو کہ جو اس میں مبتلا ہو اس کے گلے میں آیت ” یا نار کونی بردا و سلاما علی ابراہیم "، لکھ کر لٹکا دو شفا یاب ہو جائے گا۔
علی ابن زید ابن حسین کا کہنا ہے کہ میں ایک گھوڑا پر سوار ہو کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس گھوڑے کی عمر صرف ایک رات باقی رہ گئی ہے، چنانچہ وہ صبح ہونے سے پہلے مر گیا۔ اسماعیل ابن محمد کا کہنا ہے کہ میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اور میں نے ان سے قسم کھا کر کہا کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہے۔ آپؑ نے مسکرا کر فرمایا کہ قسم مت کھاؤ تمہارے گھر دو سو دینار مدفون ہیں۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گیا، پھر حضرت نے غلام کو حکم دیا کہ انہیں سو اشرفیاں دیدو۔
عبدی روایت کرتا ہے کہ میں اپنے فرزند کو بصرہ میں بیمار چھوڑ کر سامرا گیا اور وہاں حضرت کو تحریر کیا کہ میرے فرزند کے لیے دعائے شفاء فرمائیں۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ ” خدا اس پر رحمت نازل فرمائے ” جس دن یہ خط اسے ملا اسی دن اس کا فرزند انتقال کر چکا تھا۔ محمد ابن افرغ کہتا ہے کہ میں نے حضرت کی خدمت میں ایک عریضے کے ذریعے سے سوال کیا کہ ” آئمہ کو بھی احتلام ہوتا ہے ” جب خط روانہ کر چکا تو خیال ہوا کہ احتلام تو وسوسہ شیطانی سے ہوا کرتا ہے اور امام تک شیطان پہنچ نہیں سکتا، بہرحال جواب آیا کہ امام نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں وسوسہ شیطانی سے دور ہوتے ہیں، جیسا کہ تمہارے دل میں بھی خیال پیدا ہوا ہے پھر احتلام کیونکر ہو سکتا ہے۔ جعفر ابن محمد کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت کی خدمت میں حاضر تھا، دل میں خیال آیا کہ میری عورت جو حاملہ ہے، اگر اس سے فرزند نرینہ پیدا ہو تو بہت اچھا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اے جعفر لڑکا نہیں لڑکی ہو گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
کشف الغمہ ص 128
اپنے عقیدت مندوں میں حضرت کا دورہ:
جعفر ابن شریف جرجانی بیان کرتے ہیں کہ: میں حج سے فراغت کے بعد حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور ان سے عرض کی کہ مولا ! اہل جرجان آپ کی تشریف آوری کے خواستگار ہیں۔ آپ نے فرمایا تم آج سے 190 دن کے بعد واپس جرجان پہنچو گے اور جس دن تم پہنچو گے، اسی دن شام کو میں بھی پہنچ جاؤں گا۔ تم انہیں باخبر کر دینا، چنانچہ ایسا ہی ہوا میں وطن پہنچ کر لوگوں کو آگاہ کر چکا تھا کہ امام علیہ السلام کی تشریف آوری ہوئی۔ آپ نے سب سے ملاقات کی اور سب نے شرف زیارت حاصل کیا، پھر لوگوں نے اپنی مشکلات پیش کیں امام علیہ السلام نے سب کو مطمئن کر دیا۔ اسی سلسلہ میں نصر ابن جابر نے اپنے فرزند کو پیش کیا، جو نابینا تھا۔ حضرت نے اس کے چہرے پر دست مبارک پھیرکر اسے بینائی عطا کی، پھر آپ اسی روز واپس تشریف لے گئے۔
کشف الغمہ ص 128
ایک شخص نے آپ کو ایک خط بغیر سیاہی کے قلم سے لکھا آپ نے اس کا جواب مرحمت فرمایا اور ساتھ ہی لکھنے والے کا اور اس کے باپ کا نام بھی تحریر فرما دیا۔ یہ کرامت دیکھ کر وہ شخص حیران ہو گیا اور اسلام لایا اور آپ کی امامت کا معتقد بن گیا۔
دمعہ ساکبہ ص 172
امام حسن عسکری علیہ السلام کا پتھر پر مہر ثبت کرنا:
ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت سا یمنی آیا اور اس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر کر دیں۔ حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی آپ کا اسم گرامی اس طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ آنے والا مجمع ابن صلت ابن عقبہ ابن سمعان ابن غانم ابن ام غانم تھا۔ یہ وہی سنگ پارہ لایا تھا جس پر اس کے خاندان کی ایک عورت ام غانم نے تمام آئمہ طاہرین سے مہر لگوا رکھی تھی۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی امامت کا دعوی کرتا تھا تو وہ اس کو لے کر اس کے پاس چلی جاتی تھی۔ اگر اس مدعی نے پتھر پر مہر لگا دی تو اس نے سمجھ لیا کہ یہ امام زمان ہیں، اور اگر وہ اس عمل سے عاجز رہا تو وہ اسے نظر انداز کر دیتی تھی۔ چونکہ اس نے اسی سنگ پارہ پر کئی اماموں کی مہر لگوائی تھی ، اس لیے اس کا لقب (صاحبۃ الحصاة) ہوگیا تھا۔
علامہ جامی لکھتے ہیں کہ: جب مجمع ابن صلت نے مہر لگوائی تو اس سے پوچھا گیا کہ تم حضرت امام حسن عسکری کو پہلے سے پہچانتے تھے۔ اس نے کہا نہیں، واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کا انتظار کر ہی رہا تھا کہ آپ تشریف لائے میں لیکن پہچانتا نہ تھا، اس لیے خاموش ہو گیا۔ اتنے میں ایک ناشناس نوجوان نے میری نظروں کے سامنے آ کر کہا کہ یہی حسن ابن علی ہیں۔
راوی ابو ہاشم کہتا ہے کہ: جب وہ جوان آپ کے دربار میں آیا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ یہ کون ہے۔ دل میں اس کا خیال آنا تھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مہر لگوانے کے لیے وہ سنگ پارہ لایا ہے۔ جس پر میرے باپ دادا کی مہریں لگی ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس نے پیش کیا اور آپ نے مہر لگا دی۔ وہ شخص آیت ” ذریةبعضھامن بعض ” پڑھتا ہوا چلا گیا۔
اصول کافی،دمعہ ساکبہ ص 164،شواہد النبوت ص 211،اعلام الوری 214
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا عراق کے ایک عظیم فلسفی کو شکست دینا:
مؤرخین کا بیان ہے کہ: عراق کے ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کو یہ خبط سوار ہوا کہ قرآن مجید میں تناقض و تضاد ثابت کرے، اور یہ بتا دے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے، اور ایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتا ہے۔ اس نے اس مقصد کی تکمیل کے لیے کتاب ” تناقض القرآن ” لکھنا شروع کی اور اس درجہ منہمک ہو گیا کہ لوگوں سے ملنا جلنا اور کہیں آنا جانا سب ترک کر دیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کا ارادہ فرمایا۔ آپ کا خیال تھا کہ اس پر کوئی ایسا اعتراض کر دیا جائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سکے اور مجبورا اپنے ارادہ سے باز آ جائے۔
اتفاقا ایک دن آپ کی خدمت میں اس کا ایک شاگرد حاضر ہوا۔ حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اسحاق کندی کو کتاب ” تناقض القرآن ” لکھنے سے باز رکھے۔ اس نے عرض کی مولا ! میں اس کا شاگرد ہوں، بھلا اس کے سامنے کیسے لب گشائی کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ تو کر سکتے ہو کہ جو میں کہوں وہ اس تک پہنچا دو۔ اس نے کہا کر سکتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ پہلے تو تم اس سے موانست پیدا کرو، اور اس پر اعتبار جماؤ۔ جب وہ تم سے مانوس ہو جائے اور تمہاری بات توجہ سے سننے لگے تو اس سے کہنا کہ مجھے ایک شبہ پیدا ہو گیا ہے۔ آپ اس کو دور فرما دیں، جب وہ کہے کہ بیان کرو تو کہنا کہ
” ان اتاک ھذا لمتکلم بھذا القرآن ہل یجوز مرادہ بما تکلم منہ عن المعانی التی قد ظننتھا انک ذھبتھا الیھا
اگر اس کتاب یعنی قرآن کا مالک تمہارے پاس اسے لائے تو کیا ہو سکتا ہے کہ اس کلام سے جو مطلب اس کا ہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی و مطالب کے خلاف ہو۔
جب وہ تمہارا یہ اعتراض سنے گا تو چونکہ ذہین آدمی ہے فورا کہے گا کہ بے شک ایسا ہو سکتا ہے جب وہ یہ کہے تو تم اس سے کہنا کہ پھر کتاب ” تناقض القرآن ” لکھنے سے کیا فائدہ ؟ کیونکہ تم اس کے جو معنی سمجھ کر اس پر اعتراض کر رہے ہو ، ہو سکتا ہے کہ وہ خدائی مقصود کے خلاف ہو، ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اور برباد ہو جائے گی، کیونکہ تناقض تو جب ہو سکتا ہے کہ تمہارا سمجھا ہوا مطلب صحیح اور مقصود خداوندی کے مطابق ہو اور ایسا یقینی طور پر نہیں تو پھر تناقض کیسا ؟
الغرض وہ شاگرد ، اسحاق کندی کے پاس گیا اور اس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا۔ اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ پھر سوال کو دہراؤ۔ اس نے پھر سوال کو تکرار کیا۔ اسحاق تھوڑی دیر کے لیے محو تفکر ہو گیا اور کہنے لگا کہ بے شک اس قسم کا احتمال باعتبار لغت اور بلحاظ فکر و تدبر ممکن ہے، پھر اپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہو کر بولا ! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ تمہیں یہ اعتراض کس نے بتایا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میرے شفیق استاد یہ میرے ہی ذہن کی پیداوار ہے۔ اسحاق نے کہا ہرگز نہیں ، یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی چیز نہیں ہے۔ تم سچ بتاؤ کہ تمہیں کس نے بتایا اور اس اعتراض کی طرف کس نے توجہ دلائی ہے۔ شاگرد نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا تھا اور میں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پر آپ سے سوال کیا ہے۔ اسحاق کندی بولا:
" ان جئت بہ ” اب تم نے سچ کہا ہےایسے اعتراضات اور ایسی اہم باتیں خاندان رسالت ہی سے برآمد ہو سکتی ہیں۔ ” ثم انہ دعا بالنار و احرق جمیع ما کان الفہ "
پھر اس نے آگ منگوائی اور کتاب تناقض القرآن کا سارا مسودہ نذر آتش کر دیا۔
مناقب ابن شہر آشوب ج 5 ص 127،بحار الانوار ج 12 ص 172،دمعہ ساکبہ ج 3 ص 183