سیرت رسول اکرم (ص)
مؤلف: علامہ آفتاب حسین جوادی
تمام روئے زمین کے قبائل و شعوب میں سے قریش کو ہر لحاظ سے امتیازی حیثیت حاصل ہے اور پھر قریش سے خاندان بنو ہاشم باعتبار نسب تمام اہل عالم سے افضل و اعلیٰ ہے جو ملت ابرا ہیم علیہ السلام کا امین چلا آرہا تھا نیز خانہ کعبہ کی تولیت کے شرف کے باعث ایک عظمت کا حامل بھی تھا اور بنوہاشم کی فضلیت کا راز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے وابستہ ہے چنانچہ اس سلسلہ میں کتب احادیث میں بکثرت روایات پائی جاتی ہیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھ سے بیان کیا ۔
قلّبت الارض مشارقها ومغاربها فلم اجد احداً افضل من محمد صلی الله عليه وآله وسلم وقلبت الارض ومشارقها ومغاربها فلم اجد بنی اب افضل من بنی ہاشم
”میں نے زمین کے مشارق مغرب کو الٹا پلٹا کیا ہے مگر کسی شخص کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے افضل نہیں پایا اور میں نے مشارق ومغرب کی گردش کی لیکن کسی باپ کے بیٹوں کو بنی ہاشم سے افضل نہ پا یا ”۔
اللہ تعالیٰ نے اسی معزز ترین خاندان میں سے بنی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومنتخب کیا ہے جو بشارت حضرت موسی علیہ السلام کا مدعا اور نوید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقتضا ،وحدت کا معلم اور نبوت کا خاتم بن کر تشریف لا ئے ۔جب کہ سایہ پدری بھی اُٹھ چکا تھا آپ کے دادا حضرت عبد المطلب اس نور علیٰ نور کو اٹھا کر خانہ کعبہ میں لے گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے اور اس کی عطا پر شکر ادا کر تے ،کافی دیر کھڑے رہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چھ برس کے ہوئے تو والدہ محترمہ بھی انتقال فرما گئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دادا جان کے ساتھ رہے جو سردار بنی ہاشم تھے جن کے لیے کعبة اللہ کے زیر سایہ فرش بچھا یا جاتا اور ان کے فرزند ان اس کے اطراف میں بیٹھتے ،اپنے والد بزرگوار کی عظمت کے پیش نظر فرش پر کو ئی نہ بیٹھتا تھا ،لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو وہ اپنے دادا جان کے ساتھ فرش پر بیٹھ جاتے ،آپ کو ہٹانے کے لیے جب کوئی شخص پکڑتا تو حضرت عبد المطلب علیہ السلام فرماتے کہ ایسی جسارت مت کرو،خدا کی قسم یہ توبڑی شان والا ہے اور پھر آپ کی پشت مبارک پر ہاتھ پھیرتے رہتے ،حضرت عبد المطلب علیہ السلام کے موحد ہو نے کی ایک زبردست دلیل یہ ہے کہ جب ابر ہہ نے ہا تھیوں کا لشکر لے کر خانہ کعبہ پر چڑھائی کی تو اس کے لشکری حضرت عبد المطلب علیہ السلام کے اونٹ پکڑ کر لے گئے ۔حضرت عبد المطلب علیہ السلام کو جب یہ اطلاع دی گئی تو آپ اپنے اونٹ واپس کرانے کے لیے ابرہہ کے خیمے کی طرف روانہ ہو ئے ،ابرہہ نے دور سے دیکھا کہ قریش کے سب سے معزز خاندان بنو ہاشم کے سردار جو خانہ کعبہ کے کلید برداربھی ہیں، آرہے ہیں اور وہ یقینا خانہ کعبہ سے محاصرہ اٹھانے کا مطالبہ کریں گے ،لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہوا کہ عبد المطلب نے جب اپنے اونٹ واپس لینے کا مطالبہ کیا تو ابر ہہ حیران ہو کر بولا :
”اے سردار بنو ہاشم آپ اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ تو لے کر آگئے مگر خانہ کعبہ کے متعلق کو ئی بات ہی نہیں کی ”۔
حضرت عبد المطلب علیہ السلام نے فرمایا کہ اونٹ میرے ہیں، جس کے لیے میں آیا ہوں ،خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کا ہے میرا نہیں ۔
حضرت عبد المطلب علیہ السلام کا یہ جواب آپ کے ایمان بالتوحید پر واضح دلیل ہے جس پر سورہ فیل شاہد ہے کہ ہا تھیوں کے اس لشکر کو اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں سے کنکریاں مروا کر تباہ کیا اور یہ اس طبقے کے لیے بھی دعوت فکر ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد کے ایمان کا قائل نہیں ،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابھی آٹھویں سال میںہی قدم رکھا تھا کہ حضرت عبد المطلب رحلت فرما گئے اور وقت آخر اپنے فرزندوںمیں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ابو طالب علیہ السلام کی کفالت میں دے دیا چنانچہ اس سلسلہ میں علامہ سید احمدبن زینی دحلان مکہ لکھتے ہیں :
فان ابا طالب رباه صغيراً وآواه کبيراً ونصره وقره وذب عنه ومدحه بقصائد غرررضی باتباعه
اسنی المطالب فی نجاۃ ابی طالب ص١٩،مطبعہ محمد آفندی مصر،١٣٠٥
”بے شک حضرت ابو طالب علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بچین میں پرورش کی اور آپ کو بڑی عمر میں ٹھکانا دیا اور آپ کو عزت ووقار دیا،آپ سے دشمنوں کی تکالیف کو دور کیا اور بہت سے شاندار قصیدوں میں آپ کی تعریف فرمائی اور آپ کے متبعین کی بھی عزت کی اور سے راضی رہے ”۔
اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے”الاصابہ فی تمییز الصحابہ”میں حضرت ابو طالب کے تذکرہ میں واشگاف الفاظ میں لکھا:
ولما مات عبد المطالب اوصی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکفله واحسن تربيته وسافر به صحبته الی الشام وهو شاب ولما بعث قام فی نصرته وذب عنه من عاداه مدحه عدته مداح منهما قوله استسقی اهل مکه فتسقوا وابيض یستقی الغمام بوجهه ثمال اليتامیٰ عصمته للارامل ومنها قوله من قصيدة وشق له من اسمه ليجعله فذو العرش محمود هذا محمد
”جب حضرت عبد المطلب علیہ السلام کا وقت انتقال آیا تو انہوں نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے وصیت فرمائی، حضرت ابو طالب علیہ السلام نے آپ کی کفالت فرمائی اور بہترین تربیت کی اور شام کے سفر کوتشریف لے گئے تو آپ کو اپنے ساتھ رکھا ،یہاں تک کہ آپ جوان ہو گئے اورپھر جب آپ نے اعلان نبوت فرمایا تو ابو طالب علیہ السلام آپ کی نصرت و حمایت پر کمر بستہ ہو گئے اور آپ کی مدح وتعریف میں کئی قصائد انشاء فرمائے ان کا ایک شعر یہ ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ سے اہل مکہ کو بارش نصیب ہو ئی ،اور وہ گورے رنگ والے جن کے چہرہ انور کے صدقہ سے بارش طلب کی جا تی ہے جو یتیموں کی جا ئے پناہ اور بیوائوں کے نگہبان ہیں ، اور آپ کے قصیدے کا ایک شعر یہ ہے
اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا اسم گرامی اپنے اسم گرامی سے مشتق فرمایا پس وہ عرش پر محمود ہے اور یہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔
الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج٤،ص١١٥،مطبعہ السعادہ مصر،١٣٢٨ الطبعۃ الاولیٰ
یہی بات علامہ سید الناس متوفی٧٣٤ ھ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”عیون الا ثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر”جلد اول ،ص٩٧مطبوعہ بیروت ”میں لکھی ہے کہ جب آپ کی والدہ محترمہ کا وصال ہوا تو آپ کے دادا جان حضرت عبد المطلب علیہ السلام آپ کے کفیل ہو ئے ،جب آپ آٹھ برس دو ماہ دس دن کے ہو ئے تو آپ کے دادا جان انتقال فرماگئے پھر آپ کے چچا جان حضرت ابو طالب نے آپ کی کفالت فرمائی ۔
مشہور مفسر علامہ شیخ محمد شربینی الخطیب اپنی تفسیر میں سورہ والضحیٰ کی آیت مبارکہ اَلَمْ يجدک يتيماً فاٰویٰ کے ذیل میں رقم طراز ہیں :
اي بان ضمک الی عمک ابی طالب فاحسن تربيتک
”یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ابو طالب کی آغوش میں دے دیا تو انہو ں نے آپ کی بہت اچھے طریقے سے تربیت فرمائی ”۔
تفسیر سراج المنیر ج٤،ص٥٥٠تا ٥٥٢ مطبوعہ نولکشور لکھنو، ١٢٩٣ ھ
علامہ فخر الدین الرازی مذکور ہ بالا آیت مجیدہ ،کی تفسیر میں تحریر کر تے ہیں :
وکان عبد المطلب يوصی اباطالب به لان عبدالله وابا طالب کان من ام واحده فکان ابو طالب هو الذی يکفل رسول اللّٰه صلی الله عليه وسلم
”حضرت عبدالمطلب نے جناب ابوطالب کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت کی وصیت فرمائی تھی کیونکہ حضرت ابو طالب علیہ السلام اور حضرت عبد اللہ علیہ السلام (والد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )دونوں ایک ہی ماں کے بطن اطہر سے پیدا ہو ئے تھے اور حضرت ابو طالب علیہ السلام وہ ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت فرمائی تھی ”۔
تفسیر کبیرج٨، ص ٠ ٦٠مطبوعی قسطنطینیہ، ١٣٠٨ ھ
حبر الامت حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھمااس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
يتيماً بلا أ ب ولاام فاوی فاواک الی عمک ابی طالب
”بغیر ماں باپ کے فاویٰ ،آپ کو ان کے عم محترم ابو طالب کی آغوش عطا فرما دی”۔
تنویرا لمقیاس من تفسیر ابن عباس ص٤٥٢مطبعۃالمشہد الحسینی قاہرہ ،١٣٩٠ ھ
حافظ ابن کثیر الد مشقی لکھتے ہیں :
وله العمر ثمان سنين فکفلهعمه ابو طالب ثم لم يزل يحوطہ وينصره والا حوی ويرفع من قدره ويوقره ويکف عنه اذی قومه
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک اس وقت آٹھ برس تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم محترم ابو طالب نے ان کی کفالت فرمائی حضرت ابو طالب ہمیشہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احاطہ کیے رہے اور آپ کی نصرت و حمایت کر تے رہے اور آپ کو ہر اس چیز سے بچاتے رہے جو آپ کی عزت و توقیر پر حرف لا نے والی ہو اور ہر حال میں ان (کفار مکہ )کی اذیتوں سے آپ کو بچاتے رہے ۔
تفسیر ابن کثیر بھا مش فتح البیان ج٥،ص٢٤٦مطبعہ بولاق الطبعة الاولیٰ مصر ، ١٣٠١ھ
عظیم مفسر علامہ نظام الدین حسن نیشاپوری اپنی تفسیر غرائب القرآن بھامش تفسیر ابن جریر پ٣٠،ص١٠٩مطبعۃ بولاق مصر ١٣٢٩ھ میں مندرجہ بالا آیت مبارکہ کے ذیل میں یوں صراحت کرتے ہیں :
فکفل ابو طالب رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی ان اتبعته اللّٰه للرسالة فقام بنصرته مدت مديدة وعطفه الله عليه فاحسن تربيته
”حضرت ابو طالب علیہ السلام نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت فرمائی حتی کہ آپ کی بعثت کا وقت قریب آگیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب رسالت پر متمکن فرمادیا، اس طویل عرصے میں حضرت ابو طالب علیہ السلام آپ کی نصرت کرتے رہے اور ان کی زیر کفالت اللہ تعالیٰ اپنے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی بہترین تربیت فرما تا رہا ”۔
علامہ جمال الدین یوسف ابن المبرد متوفیٰ ٩٠٩ ھ،نے اپنی بیش بہا تصنیف ”الشجرۃ النبوۃ فی نسب خیر البریہ ، ص١١٧،١٢٢،١٨٣،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢٦ ھ میں بالتصریح تحریر کیا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے وصیت کی تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت حضرت ابو طالب کریں اور انہوں نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت وپرورش کی ہے۔
بعینہ یہی صراحت بہت سی مستند کتب میں دیکھی جا سکتی ہے چند ایک کے نام یہ ہیں،
1۔شرف المصطفیٰ للحافظ عبد الملک بن ابی عثمان الخر کوشی النیشاپوری المتوفی٤٠٦ ھ جلد اول ٣٨٩ھ تاص٣٩١
طبع دارالبشائر الاسلامیہ مکہ المکرمہ الطبعۃ الاولیٰ١٤٢٤ ھ
2۔لباب التاویل للخازن،ج٧،ص٢١٦مطبعۃ التقدم مصر،٣٣٢اھ
3۔تفسیر معالم التنزیل للبغوی،ج٤،ص٢٣٩،مطبع فتح الکریم بمبیٔ،١٣٠٩ھ
4۔تفسیر صاوی علیٰ الجلالین للشیخ احمد الصاوی المالکی،ج٤،ص٢٧٨ طبع داراحیاء الکتب العربیہ مصر
5۔تفسیر فتوحات الا لھیہ بتوضیح تفسیر الجلالین المعروف بہ جمل ،ج٤،ص٦٤٤،طبع اکمل المطابع دہلی،١٢٨٥ھ
6۔تفسیر جلالین مع صاوی ،ج٤،ص٢٧٨
نیز شاہ عبد العزیز دہلوی نے تفسیر عزیزی پارہ نمبر ٣٠،ص٢١٩،٢٢٠ مطبع محمدی لاہور ، ١٣٠٠ھ میں بھی بالتصریح ذکر کیا ہے بلا شبہ حضرت ابو طالب علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کی وصیت کے مطابق سرور کا ئنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی آغوش تربیت میں لیا اور نہایت حسن وخوبی سے وہ تمام فرائض جو ایک مربی کے لیے ضروری ہیں انجام دئیے جس کا اعتراف ہر عہد کے مورخ نے کیا ہے چنانچہ مشہور مورخ محمد بن سعد بصری متوفی٢٣٠ ھ نے واشگاف الفاظ میں تحریر کیا ہے ۔
کان يحبه حباً شديداً لا يحبه ولده وکان لا ينام الا الی جنبه ويخرج فيخرج معه و صب به ابو طالب صباية لم يصبّ مثلها بشی ء قط وکان يخصه بالطعام
”حضرت ابو طالب علیہ السلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے اور اپنی اولاد سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہتے تھے آپ ہی کے پہلو مبارک میں سوتے ،جب حضرت ابو طالب علیہ السلام کہیں باہر جا تے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ لے جا تے اور دنیا جہان کی ہر چیز سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فریضة و گرویدہ تھے ”۔
طبقات ابن سعد جلداول ص٧٥ تحت ذکر ابی طالب وضمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،طبع لندن ،١٣٢٢ ھ
حضرت ابو طالب علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر محبت کر تے تھے کہ آپ کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا تے کیونکہ انہیں مسلسل یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں کو ئی دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رات کے وقت سوتے ہو ئے قتل نہ کر دے۔ لہذا حضرت ابو طالب علیہ السلام کا یہی وطیرہ رہا کہ رات کا کچھ حصہ گز ر جانے کے بعد وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے بستر سے اٹھا کرکہیں اور سلا دیتے تھے۔ اور اس جگہ اپنے بیٹے حضرت علی علیہ السلام کو سلا دیا کر تے تھے ایک روز ایسے موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے کہا بابا جان ! کیا میں یہاں قتل کر دیا جائوں گا ۔حضرت ابو طالب علیہ السلام اپنے بیٹے کے اس سوال سے نہایت متاثر ہو ئے او ر فرمایا بیٹا علی علیہ السلام !! ہم نے تمہیں اس شدید ابتلا کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فدیہ بنا دیا ہے ۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام تاجرانہ حیثیت سے ایک قافلے کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہو نے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ ہی ہمسفر رکھا ان کی جدائی گوارا نہ کی ،دوران سفر کے معجزات ،ابر کے ٹکڑے کا سایہ فگن ہو نا ،درخت کی ڈالیوں کاآپ پر جھکنا تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں عام ملتا ہے نصرانی راہب کا لات وعزی کی قسم دے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ کہنا کہ جو بات میں پوچھوں بتائے جائیں اور آپ کا یہ جواب دینا کہ
لا تسالنی بلاٰت والعزی شيا فو الله ما ابغضت شهيا قط بغضهما
” لات وعزی کی قسم دے کر مجھ سے کو ئی بات نہ پو چھ ،خدا کی قسم مجھے ان دونوں سے جتنا بغض ہے اور کسی چیز سے کبھی نہیں رہا ”۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ جواب سن کر وہ ششدر ہو کر رہ گیا پھر اس نے آپ کی پشت مبارک دیکھی دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت کا نشان اس مقا م پرموجود تھا، جہاں نصرانی راہب کی کتاب میں اُس کا تذکرہ مرقوم تھا ،نصرانی نے حضرت ابو طالب علیہ السلام سے دریافت کیا ،اس لڑکے کا آپ سے کارشتہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا میرا بیٹا ہے راہب نے کہا یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا اس لڑکے کا باپ زندہ نہ ہو نا چاہیے ،حضرت ابو طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے نصرانی راہب نے کہا پھر اس کا باپ کہاں ہے ۔آپ نے جواب دیا کہ اُن کا انتقال ہو چکا ہے تب راہب نے کہا آپ نے سچ کہا اپنے اس بھتیجے کو لے کر اپنے شہر کو واپس جاو اور یہودسے اس کی حفاظت کرو ،اگر انہوں نے دیکھ لیا اور وہ سب کچھ جان لیا جو میں نے سمجھ لیا ہے تو وہ اسے ضرور نقصان پہنچائیں گے ۔
حضرت ابو طالب علیہ السلام تجارت سے فارغ ہو تے ہی جلد مکہ چلے آئے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب عالم شباب کے میدان میں قدم رکھ رہے تھے ۔زندگی کا یہ وہ دور ہو تا ہے جس سے شخصیت کے متعلق اندازہ کیا جا تا ہے ۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملات پر کسی فرد کو بھی انگشت نمائی کا موقعہ نہ ملا بلکہ ہر ایک نے صادق اور امین کہہ کر پکارا ۔
حضرت خدیجہ حسب ونسب میں اعلیٰ ترین قریش تھیں ،مال ودولت کے لحاظ سے بھی ان کا کوئی ہمسر نہ تھا متمول اور خوشحال قبائل کے افراد آپ سے نکاح کرنے کے خواہش مند تھے مگر آپ نے ہر کسی کی خواہش کو ٹھکرایا اور اپنی خاص سہیلی نفیسہ کی وساطت سے حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنے ارادے کا اظہار کیا ، آپ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام سے اس کا ذکر فرمایا تو آپ نے اسے منظور کیا چنانچہ نکاح کی تاریخ مقرر ہو گئی اور وقت مقررہ پر حضرت ابو طالب علیہ السلام اور تمام روسا ء خاندان جن میں حضرت حمزہ بھی تھے ۔حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لا ئے حضرت ابو طالب علیہ السلام نے خطبہ نکاح پڑھا ،خطبہ کی ابتداء ان الفاظ سے ہو تی ہے :
الحمد لله الذی جعلنا من ذرية ابراهيم وزرع اسماعيل وضئضیٔ معدٍّ وعنصر مضرِّ وجعلنا حضنة بيته۔۔۔۔۔۔۔الخ
”تمام تعریف اس خدائے بزرگ وبرترکے لیے سزوار ہے جس نے ہمیں ذریت ابراہیم علیہ السلام اور اولاد اسماعیل علیہ السلام ونسل معد اور صلب مضر سے پیداکیا اور ہم کو اپنے بیت (کعبہ )کا محافظ اور اپنے حرم محترم کا نگہبان مقرر فرمایا ، ہمارے لیے ایک ایسا گھر قرار دیا جس کا خلق خدا حج کر تی ہے اور ایسی متبرک زمین عطا کی جہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق امن پاتی ہے ماسوا اس کے اللہ تعالیٰ نے ہم کو لوگوں پر حاکم بنایا ۔۔۔ ”
اما بعد میرا یہ بھیجتا محمد بن عبد اللہ جن کا اگر کسی شخص سے مقابلہ اور موازنہ کیاجائے تو ازروئے فضل وکمال اور باعتبار شرافت ودیانت یہی گرامی تر نکلے گا۔ یہ مالداراور دولت مندی میں اگرچہ کم ہے مگر مال ایک ڈھلتی پھرتی چھائوں ہے اور متغیر و مبدل ہوجانے والا حال ہے ۔محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ شخص ہے جس کی قرابت جوکچھ مجھ سے ہے آپ لو گ اس کو خوب جانتے ہیں اس نے خدیجہ بنے خویلد سے تزویج کا ارادہ کیا ہے ۔ اور اس طرح میں نے اپنے مال سے (خدیجہ ) کے مہر موجل (رقم مقررہ )اور صداق موجل (رقم ،مہر جو بروقت ادا کیا جا ئے)ادا کر دیا ،میں خدا کی قسم سے کہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دہ شخص ہے جس کے لیے کو ئی خبر عظیم اور اعلیٰ ترین منصب نصیب ہونے والا ہے ۔
المواھب اللدنیہ مع شرح الزرقانی جلد ١ص٢٠١ ،المطبعۃ الازھر یہ مصر، الطبعۃ الا ولیٰ ١٣٢٥ ھ
سبل الھدیٰ والرشاد للشامی جلد ٢،ص١٦٥دارالکتب العلمیہ بیروت ،١٤٦٨ ھ
شرف المصطفیٰ للحافظ خرکوشی النیشاپوری المتوفیٰ ٤٠٦ ھ ،جلد اول ، ص٤١٣طبع ،دارالبسئائر الاسلامیہ مکہ المکرمہ ١٤٢٤
سیرت الحلبیہ جلد ١،ص ٢٢٦،مطبعۃالمصطفیٰ،مصر ١٣٨٤ ھ
حضرت ابو طالب علیہ السلام کے اس خطبے کو با ربار پڑھیے اور ایک ایک جُملہ پر غور فرمائیے کہ آپ کا ایمان بالتوحید والرسالت کس طرح ظاہر ہو رہا ہے اور اپنے آبا ء واجداد کے ایمان پر بھی کس انداز سے فخر ومباہات فرما رہے ہیں اور اپنے مال سے حق مہر کی ادائیگی کر رہے ہیں سچ ہے کہ حضرت عبد المطلب کویقین کامل تھا کہ میرا یہ بیٹا ابو طالب موحد ہے اسی لیے دنیا سے رخصت ہو تے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی اور بیٹے کی نگرانی میں نہ دیا۔آقائے نامدار علیہ الصلوة والسلام پر نزول وحی اِقْرَا بِاسِمِ رَبّکَ الَّذِیْ خَلَقَ کی آیت مبارکہ سے ہوا تو اس کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا سے فرمایا: حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام بھی اس وقت آپ کے پاس ہی رہتے تھے،آپ نے اپنے اخبار الہیٰ ہو نے کا جب قریش پر انکشاف کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی ہوں تو اعلان نبوت پر قریش میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں جو کو ئی ایک دوسرے سے ملتا ہے یہی کہتا ہوا نظر آتا کہ کچھ سنا ابو طالب علیہ السلام کا بھتیجا محمد بن عبد اللہ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے یہ خبر پورے مکہ اور اس کے گردو نواح کی آبادیوں میں پھیل گئی ہر طرف سے تعجب کا اظہار ہو نے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور وہ اس امر کی تلقین کر تا ہے کہ کہو لا الٰہ الا اللہ اعلان نبوت کے بعد حضرت ابو طالب نے جب دیکھا کہ قریش، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت پر تُل گئے ہیں تو آپ نے قریش پر جس جذبہ اور جس شجاعانہ انداز سے اپنے خاندان کی عظمت ایمان بالتوحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و نصرت کے لیے جان کی قربانی تک کی پرواہ نہ کرنے کا عرب کے ملکی رواج کے مطابق اشعار میں چیلنج فرمایا ۔تقریبا ًایک سو اشعار پر مشتمل یہ قصیدہ سیرۃ ابن ہشام اردو کے صفحہ ٢٥٦تا ٢٦٨ پر ”ابو طالب کا مشہور قصیدہ ”کے عنوان سے موجود ہے۔ اسے قصیدہ اس لیے کہاگیا کہ اس میں اپنے خاندان کی عظمت و برتری کے ساتھ سر و ر کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل ومحاسن بھی شامل ہیں ۔حضرت ابو طالب علیہ السلام کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و نصرت اور حمایت وتائید اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے ۔لہذا حضرت ابو طالب اعلان نبوت سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقدس مشن میں برابر کے شریک تھے ۔